نماز تراویح ؟

نماز تراویح کی حقیقت

تالیف : سید سبط حیدر زیدی

حوزہ علمیہ مشہد مقدس

حرف آغاز

ماہ مبارک رمضان _________ عبادتوں کے چمن کی بہار، علاج گردش لیل و نہار، پئے طہارت دل آبشار، پیام رحمت پرورگار، وقت نزول قرآن بر نبی مختار، ایام لبخندی آئمۂ اطہار، حلول قول فزت صاحب ذوالفقار، زمان توبہ و استغفار، وجہ خوشنودی کردگار، اپنے دامن میں لیے خوبیاں ہزار ہزار۔

ماہ مبارک رمضان ________ ربیع قرآن، خداوندکریم کا عظیم ترین مہینہ برکت و رحمت و مغفرت لیکر ابر بہاراں کی طرح ہمارے سروں پہ سایہ فگن ہے یہ وہ مہینہ ہے کہ خدا کے نزدیک سب مہینوں سے افضل اسکے دن تمام دنوں سے بہتر اور اسکی راتیں تمام راتوں سے بالاتر ہیں اس مہینے میں ہر سانس تسبیح کی مانند ہے ، سونا بمنزلہ عبادت ہے۔ عجیب موسم ہے ہر طرف سے صدائے تلاوت قرآن، مسجدوں میں چہل پہل، مشام افطاریوں کی خوشبوؤں سے معطر، مسلمانوں کی رفت وآمد، چہروں پر نور عبادت درخشاں، وہ شب زندہ داریاں کہ ملائک انگشت بدنداں ۔

ایکن افسوس کہ اس ماہ مبارک میں کچھ مکروہات و محرمات بنام حسنات و مستحبات انجام دیے جاتے ہیں کہ انمیں سے ایک نماز تراویح بھی ہے اور یہ مسئلہ وہاں پر کچھ اور بھی زیادہ گرم نظر آتا ہے جہاں شیعہ و سنی آبادیاں مخلوط و مشترک ہیں ۔ اھل تسنن یہ فعل انجام دیتے ہیں اور جب شیعوں کی جانب سے سوال ہوتا ہے کہ نماز تراویح کی حقیقت کیا ہے؟ تو کھسیانی بلی کھنبا نوچے والی حیثیت سے نام نہاد علماء کی تقاریر کے جوش وخروش میں اور اضافہ ہوجاتاہے اور پھر شیعوں کے روزوں کو فاقہ و گرسنگی سے تعبیر کرکے نماز تراویح کی اتنی فضیلت بیان کی جاتی ہے کہ روزے کی قبولیت کو نمازتراویح کی انجام دہی پر موقوف کردیاجاتاہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اسی کے روزے قبول ہوتے ہیں کہ جو نمازتراویح انجام دیتاہے !!

ان تقاریر کا یہ اثر ہوتا ہے کہ تراویح کی حقیقت سے نا واقف بعض شیعہ حضرات یا نادان مومنین کے اذھان تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگرچہ شیعہ علماء ھمہ وقت شیعیان حیدرکرار اور مذہب اہلبیت علیھم السلام کے حضور خدمت میں حاضر ہیں اور ہر طرح کے اعتراضات و اتہامات کا دفاع کرتے چلے آئے ہیں ۔ حقیر کے سامنے بھی یہ مسئلہ پیش آیا لھذا فی الفور قانع کنندہ جواب کے بعد یہ ارادہ کیا کہ اس سلسلے میں ایک ایسی جامع تحقیق پیش کی جائے کہ جو ہمیشہ کیلیے مسکت جواب ہو لھذا « نماز تراویح کی حقیقت» کےنام سے اس جزوہ کو آمادہ کیا۔ اسمیں نماز تراویح کی حقیقت بیان کرتے ہوے کہ یہ بدعت، دین حقیقی اسلام ناب محمدی میں کہاں سے وارد ہوئی ؟ کب اور کون مؤجد قرار پایا ؟ کے ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت کی گئی ہےکہ مذہب حقہ، شیعہ اثنا عشری میں نافلۂ ماہ مبارک رمضان کا وجود ہے ، اور اسکا ایک خاص مقام ہے کہ جسکو بہت سے مؤمنین الحمدللہ انجام بھی دیتے ہیں ۔

وفی الختام بارگاہ احدیت میں ملتجی ہوں کہ یہ جزوہ مؤمنین کیلیے قابل استفادہ اور دیگر مسلمین کیلیے قابل ہدایت قرار پائے اور حقیر کوخدمت گذاران شیعیان امیر المؤمنین اور مدافعین حریم مذہب اھلبیت علیھم السلام میں سے شمار فرمائے آمین یا رب العالمین۔

سید سبط حیدر زیدی

حوزۂ علمیۂ مشہد مقدس

غرۂ ماہ مبارک رمضان 1422ھ

--------

نماز تراویح کی حقیقت

تراویح باعتبارلغت : تراویح، ترویحۃ کی جمع ہے اور آرام و استراحت کے واسطے ایک مرتبہ بیٹھنے کیلیے استعمال ہوتاہے ۔

علامہ ابن منظور علم لغت کی عظیم کتاب لسان العرب میں تحریر فرماتے ہیں : (التراویح، جمع ترویحۃ و ھی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ تفعیلۃ منھا مثل تسلیمۃ من السلام، والترویحۃ فی شھر رمضان سمیت بذالک لاستراحۃالقوم بعد کل اربع رکعات) تراویح ، ترویحۃ کی جمع ہے اور ایک مرتبہ آرام کرنے کا نام ہے مادہ راحت سے بر وزن تفعیلہ جیسےمادہ سلام سے وزن تسلیمہ، اور ماہ رمضان کی نماز تراویح کو بھی اسیلئے تراویح کہتے ہیں کہ لوگ ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتے ہیں ۔[1]

صاحب مجمع البحرین لفظ تراوح کے ذیل میں رقمطراز ہیں : (التراوح تفاعل من الراحۃ لان کلا من المتراوحین یریح صاحبہ و صلاۃ التراویح المخترعۃ من ھذا الباب لان المصلی یستریح بعد کل اربع) تراوح مادہ راحت سےباب تفاعل کا مصدر ہے یعنی دو آدمیوں کا یکے بعد دیگرے صبح سےشام تک کنوے سے پانی کھینچنا، اسلئےکہ اسمیں بھی ایک شخص دوسرے کے لئے استراحت و آرام کا باعث ہوتا ہے اور گھڑی ہوئی و ایجاد شدہ نماز تراویح بھی اسی باب سے ہے چونکہ نمازگذار ہر چار رکعت کے بعد آرام کرتا ہے ۔[2]

تراویح باعتباراصطلاح : علم لغت کے دو ماہر اور خریت فن کے بیانات سے معنئ لغوی کے ساتھ ساتھ اصطلاحی معنی بھی واضح و روشن ہو جاتے ہیں اگر چہ نماز تراویح کیا ہے؟ اور نماز تراویح کسکو کہتے ہیں؟ اسکی تلاش میں زیادہ سر گرداں ہونے کی ضرورت نہیں ہے اسلئے کہ ماہ مبارک رمضان میں اھلسنت کی مساجد میں یہ فعل عملا دیکھا جاسکتا ہے یعنی مذھب اھلسنت کے نزدیک ماہ مبارک رمضان میں نماز مغرب و عشاء کے بعد نافلہ نمازوں کو باجماعت انجام دینا تراویح کہلاتا ہے اور اب نماز تراویح پر اسقدر اصرار وتاکید ہے کہ نماز تراویح مذہب اہلسنت کے لئے شعار اور پہچان بن گئی ہے ۔

ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں

ماہ مبارک رمضان ، عظیم اور خیر و برکت کا مہینہ ہے کہ جسمیں خداوندعالم اپنے بندوں پر درھائے رحمت کو کھول دیتا ہے اور شیطان کو محبوس کرلیا جاتا ہے۔

رمضان المبارک ، عبادت، ریاضت، قناعت، تقوی، پرہیزگاری، تزکیہء نفس، نجات، بخشش، توبہ، مغفرت، رحمت، شب قدر اور آرام و سکون کے ساتھ ساتھ کچھ مخصوص واجبات و مستحبات کے ہمراہ آنے والا با برکت مہینہ ہے۔ اشرف کائنات افضل مخلوقات حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مہینہ کے سلسلے میں ماہ شعبان کے آخر میں ایک عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ جسکا خلاصہ یہ ہے : اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ خدا کا مہینہ برکت و رحمت و مغفرت لیکر تمہارے پاس آیا ہے یہ وہ مہینہ ہے کہ خدا کے نزدیک سب مہینوں سے افضل اسکے دن تمام دنوں سے بہتر اور اسکی راتیں تمام راتوں سے بالاتر ہیں اس مہینے میں تمہارا ہر سانس تسبیح کی مانند ہے ، تمہارا سونا بمنزلہ عبادت ہے، تمہارے عمل مقبول ہیں اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں پس تم صدق نیت سے خداوندعالم سے سوال کرو کہ وہ اس مبارک مہینے میں روزہ رکھنے اور قرآن پڑھنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ اے لوگو ! جو تم میں سےکسی مؤمن کو اس مہینے میں افطار دیگا اسکو خدائےکریم ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائےگا اور اسکے گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے یہ سن کر بعض اصحاب نے عرض کی یا رسول اللہ ہم افطار کرانے پر قادر نہیں ہیں تب آپ نے فرمایا افطار دینے کے ذریعہ خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ چاہے یہ افطار خرمے کے آدھے دانے کے برابر ہو یا ایک گھونٹ پانی کے برابر، پھر بھی خدا یقینا وہی ثواب دیگا ۔ پھر فرمایا : اے لوگو جو اس مہینے میں صلہء رحم کریگا خدا قیامت میں اسکے ساتھ صلہء رحمت کریگا اور جو اس ماہ میں قطع رحم کریگا خداوند قیامت میں اسکے ساتھ قطع رحمت کریگا جو اس مہینے میں مستحبی نمازیں انجام دیگا خدا اسکے لئے جہنم سے امان کا پروانہ لکھ دیگا ، جو مجھ پر اور میری آل پر کثرت سے درود بھیجےگا خدا اس دن اسکے اعمال کی ترازو کو بھاری کردیگا جس دن اعمال کی ترازو ہلکی ہوجائیں گی اور جو اس مہینے میں ایک آیت کی تلاوت کریگا خداوند اسکو اس قدر ثواب مرحمت فرمائےگا جتنا کہ اور مہینوں میں ختم قرآن کا ہوتا ہے ۔ اے لوگو تمہارے لئے اس مہینے میں جنت کے دروازے کھلے ہوے ہیں لھذا خدا سے دعا کرو کہ انہیں تمہارے لئے بند نہ کرے اور جہنم کے دروازے بند ہیں لھذا خدا سے سوال کرو کہ انکو تم پر نہ کھولے اس مہینے میں شیاطین مقید اور باندھ دئے گئے ہیں تم خدا سے چاہو کہ انکو تمہارے اوپر مسلط نہ کرے ۔[3]

بہر حال اس عظیم اور بابرکت مہینے کے اعمال میں سے نافلہ نمازیں بھی ہیں اگر چہ سال میں ہر روز نافلہ نمازوں کا وجود ہے لیکن یہ نمازیں اپنی خصوصیات و فضائل میں یکتا ہیں.

مذہب شیعہ اور ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں

مذہب امامیہ شیعہ اثناعشری کے نزدیک ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کا وجود مسلم ہے اور انکی تعداد ایک ہزار رکعت ہے کہ جو اول ماہ رمضان سے بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت اور اکیس سے آخر ماہ رمضان تک ہر شب تیس رکعت و شبھائے قدر میں ہر شب سو رکعت جداگانہ انجام دی جاتی ہے کہ جو مجموعا ایک ہزار رکعت ہوجاتی ہے۔ البتہ یہ عام دنوں میں ہر روز کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے ۔اس مطلب کی تائید میں مذہب حقہ شیعہ اثناعشری کی معتبر کتب سےکچھ احادیث اور چند جید علماء کے نظریے و فتوے قارئین کے حضور پیش کرتے ہیں ۔

پہلی روایت : قال ابوعبداللہ علیہ السلام مماکان رسول اللہ یصنع فی شھر رمضان کان یتنفل فی کل لیلۃ و یزید علی صلاتہ التی کان یصلیھا قبل ذالک منذ اول لیلۃ الی تمام عشرین لیلۃ فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ثمانی رکعات منھا بعد المغرب واثنتی عشرۃ بعد العشاء الآخرۃ ویصلی فی العشر الاواخر فی کل لیلۃ ثلاثین رکعۃ اثنتی عشرۃ منھا بعد المغرب و ثمانی عشرۃ بعد العشاء الآخرۃ و یدعو ویجتھد اجتھادا شدیدا وکان یصلی فی لیلۃ احدی و عشرین مائۃ رکعۃ ویصلی فی لیلۃ ثلاث و عشرین مائۃ رکعۃ و یجتھد فیھما۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ان کارناموں میں سے کہ جو رسول اسلام ماہ مبارک رمضان میں انجام دیتے تھے نافلۂ ماہ رمضان ہے کہ جو سالانہ ایام کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے وہ ہر شب بیسویں ماہ رمضان تک بیس رکعت نماز انجام دیتے آٹھ رکعت مغرب کے بعد بارہ رکعت عشاء کے بعد اور اکیسویں ماہ سے آخرماہ تک ہر شب تیس رکعت نماز انجام دیتے بارہ رکعت مغرب کے بعد اور اٹھارہ رکعت عشاء کے بعد بہت دعا فرماتے اور بہت زحمت و مشقت اٹھاتے نیز اکیس و تیئیس کی شبوں میں سو سو رکعت نماز انجام دیتے اور بہت ہی جہد و کوشش کرتے۔[4]

دوسری روایت : عن ابی حمزہ قال دخلنا علی ابی عبداللہ علیہ السلام فقال لہ ابوبصیر ما تقول فی الصلاۃ فی رمضان ؟ فقال لہ ان لرمضان لحرمۃ حقا لا یشبہہ شیء من الشھور صل ما استطعت فی رمضان تطوعا باللیل و النھار و ان استطعت فی کل یوم و لیلۃ الف رکعۃ فصل، ان علیا علیہ السلام کان فی آخر عمرہ یصلی فی کل یوم و لیلۃ الف رکعۃ فصل یا ابامحمد زیادۃ فی رمضان، فقال کم جعلت فداک ؟ فقال فی عشرین لیلۃ تمضی فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ، ثمانی رکعات قبل العتمہ و اثنتی عشرۃ بعدھا سوی ما کنت تصلی قبل ذالک، فاذا دخل العشر الاواخر فصل ثلاثین رکعۃ کل رکعۃ ، ثمان قبل العتمۃ و اثنتین و عشرین بعد العتمۃ سوی ما کنت تفعل قبل ذالک۔ جناب ابوحمزہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ابوبصیر نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ ماہ رمضان کی نمازوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں تب آب نے فرمایا بیشک ماہ رمضان کا خاص احترام ہے، حق یہ ہے کہ اس ماہ کو کسی مہینے سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی رمضان کی شب و روز میں مستحب نمازیں جتنی بھی ہوسکتی ہیں انجام دیں اور اگر ہوسکے تو ہرشبانہ روز ایک ایک ہزار رکعت پڑھیں، حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنی عمر کے آخری ایام میں ہر شب و روز ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے، اے ابومحمد آپ زیادہ سے زیادہ سے نمازیں انجام دیں عرض کی آپ پر ہماری جانیں قربان کتنی نماز ؟ تب آپ نے فرمایا پہلی بیس شبوں میں ہر شب بیس بیس رکعت نماز کہ آٹھ رکعت عشاء سے پہلے اور بارہ رکعت عشاء کے بعد ان نمازوں کے علاوہ جو غیر ماہ رمضان میں انجام دی جاتی ہیں اور رمضان کے آخری عشرے میں ہر تیس رکعت نماز انجام دیں یہ بھی عام نمازوں کے علاوہ ہے۔[5]

تیسری روایت : حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے حضور احمد ابن مطہر نے عریضہ لکھا اور نماز نافلۂ رمضان کے متعلق دریافت کیا تب آپ نے جواب ارسال فرمایا صل فی کل لیلۃ من شھر رمضان عشرین رکعۃ الی عشرین من الشھر و صل لیلۃ احدی و عشرین مائۃ رکعۃ وصل لیلۃ ثلاثۃ و عشرین مائۃ رکعۃ، وصل فی کل لیلۃ من العشر الاواخر ثلاثین رکعۃ۔ بیسویں ماہ رمضان تک ہر شب بیس رکعت نماز انجام دیں اور اکیس و تیئیسویں شب کو سو سو وکعت نیز آخری عشرے میں ہر شب تیس رکعت نماز انجام دیں .[6]

ان روایتوں کے علاوہ کتب احادیثی شیعہ میں اسطرح کی روایات بھر پور ہیں کہ جنمیں کہیں پر اول ماہ سے آخرماہ تک کی نماز مذکور ہے اور بعض روایات میں صرف شبھای قدر کی نمازوں کا ذکر ہے بلکہ وسائل الشیعہ میں مستقل ایک باب ہے کہ جسمیں شبھای قدر کی سو سو رکعت نماز سے متعلق متعدد احادیث درج ہیں[7] جبکہ بعض روایات میں 19، 21، 32، رکعت کو مشخص کرکے نماز کا حکم ہے اور بعض روایات میں صرف اتنا آیا ہے (فصل فی رمضان زیادۃ الف رکعۃ)[8] یعنی ماہ رمضان میں کل ملاکر ایک ہزار رکعت نماز پڑھی جانی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء شیعہ نے بھی انہی روایات سے استنباط کر کے ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کی تعداد ایک ہزار رکعت بتائی ہے اور اسکا طریقہ بھی بیان فرمایا ہے ، لھذا چند ممتاز و جید علماء و مراجع کے نظریے پیش خدمت ہیں۔

نظریہ سید مرتضی : ومما انفردت بہ الامامیہ ترتیب نوافل شھر رمضان علی ان یصلی فی کل لیلۃ منہ عشرین رکعۃ منھا ثمان بعد صلاۃ المغرب و اثنتاعشرۃ رکعۃ بعدالعشاءالآخرۃ ، فاذا کان فی لیلۃ تسع عشرۃ صلی مائۃ رکعۃ ، و یعود فی لیلۃ العشرین الی الترتیب الذی تقدم ، ویصلی فی لیلۃ احدی و عشرین مائۃ رکعۃ ، و فی لیلۃ اثنتین و عشرین ، ثلاثین رکعۃ منھا ثمان بعد المغرب والباقی بعد صلاۃ العشاء الآخرۃ ... علم الھدی سید مرتضی تحریر فرماتے ہیں کہ یہ مذہب شیعہ کی انفرادیت میں سے ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کو اسطرح انجام دیاجائے کہ ہر شب بیس رکعت جسمیں آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد، انیسوی شب میں سو رکعت اور پھر بیسوی شب میں پہلے کی ترتیب ، پھر اکیسوی شب میں سو رکعت اور بائسویں شب میں تیس رکعت نماز پڑھی جائےگی کہ آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بائیس رکعت نماز عشاء کے بعد انجام دی جائےگی گویا اول شب سے بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت اور اکیس سے آخر ماہ تک ہر شب تیس رکعت نیز قدر کی راتوں میں ہر شب 100 رکعت نماز انجام دی جاتی ہے.[9]

شیخ الطائفہ مرحوم شیح طوسی رقمطراز ہیں کہ (یصلی طول شھر رمضان الف رکعۃ زائدا علی النوافل المرتبۃ فی سائر الشھور ، عشرین لیلۃ فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ، ثمان بین العشائین و اثنتا عشرۃ بعد العشاءالآخرۃ وفی العشر الاواخر کل لیلۃ ثلاثین رکعۃ ، فی ثلاث لیال و ھی لیلۃ تسع عشرۃ و لیلۃ احدی و عشرین و لیلۃ ثلاث وعشرین ، کل لیلۃ مائۃ رکعۃ) اول ماہ رمضان سے آخر تک ہمیشہ و روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ایک ہزار رکعت نماز پڑھی جائے اسطرح کہ بیس تاریخ تک ہر شب بیس رکعت کہ آٹھ رکعت نماز کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری دس شبوں میں ہر رات تیس رکعت ، نیز تین شبون میں کہ جو انیس اکیس اور تئیس کی شبیں ہیں ہر شب سو رکعت نماز انجام دی جائے.[10]

جناب علامہ حلی تحریر فرماتے ہیں کہ (المشھور استحباب الف رکعۃ فیہ زیادۃ علی النوافل الشھورۃ) مشھور یہ ہے کہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ ایک ہزار رکعت ہیں کہ جنکی انجام دھی کی ترتیب اسطرح ہے کہ (ان یصلی فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ الی آخر الشھر و فی العشر الاواخر فی کل لیلۃ زیادۃ عشر رکعات و فی اللیالی الافراد زیادۃ فی کل لیلۃ مائۃ رکعۃ) اول ماہ رمضان سے آخر ماہ تک ہر شب بیس رکعت اور آخری عشرہ میں ہر شب دس رکعت کا اور اضافہ ہوگا اور تین شبھای قدر میں ان نمازوں کے علاوہ سو سو رکعت نماز اور انجام دی جائےگی ۔[11]

جناب محقق حلی بیان فرماتے ہیں کہ (نافلۃ شھر رمضان ، والاشھر فی الروایات استحباب الف رکعۃ فی شھر رمضان زیادۃ علی النوافل المرتبۃ ، یصلی فی کل لیلۃ عشرین رکعۃ ثمان بعد المغرب اثنتی عشرۃ رکعۃ بعد العشاء علی الاظھر، و فی کل لیلۃ من العشر الاواخر ثلاثین علی الترتیب المذکور و فی لیالی الافراد الثلاث فی کل لیلۃ مائۃ رکعۃ) ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازیں روزمرہ کی نافلہ نمازوں کے علاوہ بطبق روایات اشھر یہ کہ ایک ہزار رکعت ہیں کہ جنکو اسطرح انجام دیا جاتا ہے کہ اول ماہ رمضان سے آخر ماہ تک ہر شب بیس رکعت ، آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری عشرے میں ہر شب دس رکعت اور زیادہ انجام دی جائےگی نیز تین شبہای قدر میں ہر شب سو رکعت کا اور اضافہ ہوگا۔[12]

جناب فاضل نراقی : (الف رکعۃ نافلۃ شھررمضان زیادۃ علی النوافل المترتبہ فانھامستحبۃ علی الاشھر روایۃ و فتوی، بل علیہ الاجماع ۔ ثم فی کیفیۃ توزیع الالف علی الشھر، ان یصلی فی کل لیلۃ من الشھر عشرین رکعۃ ثمان بعد المغرب و اثنتی عشرۃ بعد العشاء و یزید فی العشر الآخر فی کل لیلۃ عشر رکعات بعد العشاء و فی لیالی الثلاثۃ القدریۃ مائۃ زائدۃ علی وظیفتھا) صاحب مستندالشیعہ تحریر فرماتے ہیں کہ ہمیشہ روزمرہ کی نوافل کے علاوہ ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں ایک ہزار رکعت ہیں یہ بر بناء قول اشھر باعتبار روایت و فتوی مستحب ہیں بلکہ اسپر علماء شیعہ کا اجماع ہے پھر یہ ہزار رکعت پورے مہینہ پر اسطرح تقسیم ہوتی ہیں کہ ہر شب بیس رکعت آٹھ رکعت نماز مغرب کے بعد اور بارہ رکعت نماز عشاء کے بعد اور آخری دس شبوں میں ہر شب دس رکعت کا اور اضافہ کیا جائیگا نیز تینوں شبھای قدر میں اس مذکورہ وظیفہ کے ساتھ ساتھ ہر شب 100 رکعت نماز کا اور اضافہ ہوگا۔[13]

مذہب اہلسنت اور ماہ رمضان کی نافلہ نمازیں

اھل تسنن کے نزدیک نوافل ماہ رمضان میں بہت زیادہ اختلاف ہے لیکن مشہور بیس رکعت ہیں انہیں کو نمازتراویح کے نام سے یاد کیا جاتاہے اور یہ جماعت سے انجام دی جاتی ہیں اس مطلب کی تائید میں ھم اھل تسنن کے جید علماء کے نظریات پیش کرتے ہیں ۔

مذہب اہلسنت کی عظیم ترین کتاب صحیح بخاری کی معتبر ترین شرح عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری میں تحریر ہے (وقد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرۃ) نافلہ ماہ رمضان کی تعداد رکعات میں علماء کے درمیان بہت زیادہ اختلاف ہے بعض افراد اکتالیس رکعت کے قائل ہیں تو بعض اڑتیس رکعت کے ، کچھ نے چھتیس کو ترجیح دی ہے تو کسی نے چونتیس رکعت کو اپنایا ہے ، کوئی چوبیس رکعت کا قائل ہوا توکسی نے اکیس رکعت کواخذ کیا ، لیکن مشہور و معروف بیس رکعت ہے اور اسکے علاوہ نماز وتر ہے اگرچہ بعض افراد سولہ رکعت اور کچھ تیرہ رکعت ہی کے معتقد ہیں بلکہ بعض نے رمضان کی نافلہ اور غیر رمضان کی نافلہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں جانا بلکہ کہا ہے کہ ہر شب صرف گیارہ رکعت نماز نافلہ مستحب ہے۔[14]

علامہ قسطلانی نے بخاری شریف کی شرح ارشاد الساری میں تحریر کیاہیکہ (المعروف و ھو الذی علیہ الجمھور انہ عشرون رکعۃ بعشر تسلیمات و ذالک خمس ترویحات ، کل ترویحۃ اربع رکعات بتسلیمتین) ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کے بارے میں معروف یہ ہے کہ بیس رکعت ہیں یہی علماء جمہور کا نظریہ ہے کہ جو دس سلام کے ساتھ یعنی دو دو رکعت کرکے انجام دی جاتی ہے اسمیں پانچ ترویحہ (آرام و استراحت)ہیں اور ہر ترویحہ چار رکعت کے بعد ہے۔[15]

بہرحال گزشتہ گفتگو سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی نافلہ نمازوں کا وجود مذہب امامیہ شیعہ اثنا عشری اور مذہب اہلسنت دونوں کے نزدیک ثابت ہے لیکن اختلاف رکعتوں کی تعداد اور کیفیت میں ہے ۔ لھذا اصل موضوع یہ ہے کہ نمازتراویح کہ جو ماہ مبارک رمضان میں ہر شب بیس رکعت جماعت کے ساتھ دو دو رکعت کرکے انجام دی جاتی ہے اور ہر چار رکعت کے بعد آرام و استراحت کیا جاتا ہے اسی کی وجہ سے اسکو نمازتراویح کہتے ہیں یہ نماز اس و کیفیت اور جماعت کے ساتھ کب ؟ اور کہاں سےشروع ہوئی ؟ کس نے شروع کی ؟!!!

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد