نماز تراویح ؟

نمازتراویح اور پیغمبراکرم(ص)

خداوندکریم تمام مسلمانوں سے ببانگ دھل ارشاد فرمارہاہے کہ میرا رسول تم لوگوں کیلیے اسوہء حسنہ ہے اور تمہاری زندگی کیلیے بھترین نمونہ ہے لھذا یہ اپنا شیوا بنالو کہ جو میرا حبیب دے اسے بے جھجک لے لو اور جس سے روکے اس سے بے چون و چرا رک جاؤ ( مااتاکم الرسول فخذواہ ومانھاکم عنہ فانتھوا) اسی عقیدے کو سامنے رکھتے ہوے مسلمانوں کو قدم بڑھانا ہے اور ہر مسئلے کی شرعی حیثیت دیکھنے کیلیے یہ ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ یہ فعل حضورانور نے انجام دیا یا نہیں ؟ اگر چہ اس مطلب کے صاف و شفاف ہونے کے بعد کہ نمازتراویح کی ایجاد عمر کے زمانے سے ہوئی یہ بحث کرنا ہی عبث و بے فائدہ ہے کہ رسول اکرم(ص) نے نمازتراویح پڑھی یا نہیں ؟ جبکہ قول عمر کہ تراویح بدعت ہے اس بات پر دلالت کرتاہے کہ یہ فعل اس سے پہلے کسی نے انجام نہیں دیا چونکہ معنی بدعت ہی یہ ہیں کہ جو پہلے سے وجود نہ رکھتاہو لھذا خود علماء اھل تسنن نے اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے کبھی نمازتراویح کو انجام نہیں دیا ہاں بلکہ وہ نافلہء ماہ رمضان بجالاتے تھے۔

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ (من قام رمضانا ایمانا و احتسابا غفراللہ لہ ما تقدم من ذنبہ، قال ابن شھاب: فتوفی رسول اللہ والامر علی ذالک ثم کان الامر علی ذالک فی خلافۃ ابی بکر و صدرا من خلافۃ عمر) نافلہ ماہ رمضان کی فضیلت میں حدیث ہے کہ جو شخص خلوص و ایمان کے ساتھ نافلہ ماہ رمضان انجام دےگا خداوند اسکے تمام گزشتہ گناہوں کو بخش دےگا اسکے بعد ابن شھاب کا بیان ہے نافلہ ماہ رمضان عصر پیغمبراکرم(ص) میں انجام دی جاتی تھیں خلافت ابوبکر میں بھی باقی رہیں اور خلافت عمر کے ابتدائی زمانے تک انجام دی گئیں لیکن پھر عمر نے تراویح کی بدعت ڈالی لھذا نافلہ ختم تراویح شروع ہوگئی۔[31]

چونکہ ہمارا مبنی بھی عدل و انصاف پر ہے اور تعصب سے کام لینا ہمارا ھدف نہیں ہے یھی ہم قارئین سے بھی چاہتے ہیں لھذا وہ روایات بھی نقل کیے دے رہے ہیں کہ جن سے اھل تسنن اپنے مدعی پر استدلال کرتے ہیں اگرچہ قارئین کو عدل و انصاف کا بھر پور حق حاصل ہے۔

شیعہ کتب کی روایت (عن زرارہ محمد بن مسلم والفضیل: انھم سالوا اباجعفر الباقر و اباعبداللہ الصادق علیھماالسلام عن الصلوۃ فی شھر رمضان نافلۃ باللیل فی جماعۃ ؟ فقالا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا صلی العشاہ الآخرۃ انصرف الی منزلہ ثم یخرج من آخر اللیل الی المسجد فیقوم و یصلی فاصف الناس خلفہ فھرب منھم الی بیتہ و ترکھم ففعلوا ذالک ثلاث لیال فقام فی الیوم الثالث علی منبرہ فحمد اللہ و اثنی علیہ ثم قال ایھاالناس ان الصلوۃ بااللیل فی شھر رمضان من النافلۃ فی جماعۃ بدعۃ و صلوۃ الضحی بدعۃ الا فلا تجمعوا لیلا فی شھر رمضان لصلوۃ اللیل ولاتصلوا صلوۃ الضحی فان تلک معصیۃ الا و ان کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ سبیلھا الی النار ثم نزل وھو یقول قلیل فی سنۃ خیر من کثیر فی بدعۃ) زرارہ محمد بن مسلم اور فضیل نے امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھماالسلام سے ماہ رمضان کی نافلہ نمازوں کو جماعت سے پڑھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا بیشک پیغمبر اسلام(ص) ماہ رمضان نمازعشاء انجام دینے کے بعد اپنے بیت الشرف تشریف لے آتے تھے اور پھر آخر شب مسجد میں تشریف لےجاکر قیام فرماتے اور نماز نافلہ انجام دیتے کہ ایک مرتبہ لوگ انکے پیچھے جمع ہوگئے آپ لوگوں کو اسی حال میں چھوڑ کر اپنے گھر واپس چلے گئے یہ سلسلہ تین شبوں تک جاری رھا پھر آپ تیسرے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور حمد و ثناء الھی کے بعد ارشاد فرمایا اے لوگوں نافلہ ماہ مبارک رمضان جماعت کے ساتھ بدعت ہے اور نمازضحی بدعت ہے ، آگاہ ہوجاؤ نافلہ ماہ رمضان جماعت سے انجام نہ دینا اور نہ ہی نمازضحی پڑھنا اسلیے کہ یہ گناہ و معصیت ہے، آگاہ ہوجاؤ کہ ہر بدعت گمراھی ہے اور ہر گمراہی کی راہ جھنم ہے، پھر منبر سے نزول فرماتے ہوئے یہ کلمے زبان زد تھے تھوڑی سی سنت بہت زیادہ بدعت سے بہتر ہے۔[32]

یہ روایت چند اعتبار سے دیگر روایات سے مقدم ہے اول یہ کہ اسکو اکثر علماء شیعہ نے بیان کیا ہے مثلا شیخ صدوق نے الفقیہ من لا یحضرہ الفقیہ میں شیخ طوسی نے تھذیب الاحکام و الاستبصار میں اور شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں، دوم یہ کہ دیگر روایات میں ایک شب کا ذکر ہے یا دو شبوں کا لیکن اسمیں تین شب مذکور ہیں البتہ تین شب سے زیادہ کسی بھی روایت میں یہ فعل نظر نہیں آتا خواہ روایت اہل تسنن ہو یا روایت شیعہ، بہر حال اس روایت میں رسول اکرم کی اقتداء میں نماز نافلہ پڑھنا پایاجاتاہے لیکن رضایت رسول اکرم(ص) نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آپ انکو چھوڑ کر گھر تشریف لےگئے اور آخر کار تیسرے روز منبر پر تشریف فرماہوئے اور انکو اس کام سے زجر و منع فرمایا ، نتیجۃ اس طرح کی روایت سے کسی بھی عقل سلیم میں تراویح کا جماعت سے جائز ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔

روایت اہل تسنن ( حدثنا یحی بن بکیر حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شھاب اخبرنی عروۃ ان عاشۃ اخبرتہ ان رسول اللہ(ص) خرج لیلۃ فی جوف اللیل فصلی فی المسجد و صلی رجال بصلاتہ فاصبح الناس فتحدثوا فاجتمع اکثر منھم فصلوا معہ فاصبح الناس فتحدثوا فکثر اھل المسجد من اللیلۃ الثالثۃ فخرج رسول اللہ(ص) فصلی فصلوا بصلاتہ فلما قضی الفجر اقبل علی الناس فتشھد ثم قال اما بعد فانہ لم یخف علی مکانکم ولکنی خشیت ان تفترض علیکم فتعجزوا عنھا فتوفی رسول اللہ(ص) والامر علی ذالک)۔[33]

ترجمہ : یحی بن بکیر کا بیان ہے کہ ہم سے لیث نے عقیل سے اور عقیل نے شھاب سے روایت کی ہے کہ مجھکو عروۃ نے خبر دی اور اسکو عائشہ نے بتایا کہ رسول اکرم نصف شب بیت الشرف سے باہر آئے اور مسجد میں تشریف لے جاکر نماز پڑھی لوگوں نے آپ کی اقتداء کی، صبح نمودار ہوئی لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا اگلے روز اور زیادہ افراد ہوگئے، صبح ہوئی پھر ایک دوسرے کو اطلاع دی گئی اور اس شب گزشتہ شبوں سے بھی زیادہ اژدھام ہوا تب رسول اکرم نے صبح کو نماز فجر کے بعد فرمایا آپ کے ذوق و شوق سے مجھے خوف نہیں ہے بلکہ مجھکو خوف اس بات کا ہے کہ کہیں آپ پر یہ واجب نہ ہوجائے اور پھر تم اسکو انجام نہ دے سکو، رسول اکرم کی وفات واقع ہوگئی اور نماز نافلہ فردی ہی انجام دی جاتی رہی۔

اس روایت میں چند چیز قابل تامل ہیں۔

اول : کیا کسی مستحب فعل کا مسلسل انجام دینا اسکے واجب ہونے کا سبب ہوسکتاہے جبکہ واضح ہے کہ احکام الھی (وجوب و حرمت استحباب و کراہت و اباحہ) سب کےسب مشیت الھی و مصالحہ ومفاسدہ کے تابع ہیں نہ کہ مسلسل و مرتب انجام دینے کے نیز اگر کوئی شی مسلسل ومرتب انجام دینے کی وجہ سے واجب ہو تو خداوندعلیم کا جاھل ہو نا لازم آئیگا چونکہ مطلب یہ ہوگا کہ خداوند پہلے سے اس کام کی مصلحت سے واقف نہ تھا بلکہ لوگوں کے ذوق وشوق کو دیکھکر اس فعل کو واجب قرار دیا۔ نعوذ باللہ من ذالک

دوم : اگر کسی نماز کو مرتب و مسلسل جماعت سے انجام دینا اس جماعت کے واجب ہونے کا سبب ہے تو پھر یہ جماعت یومیہ نمازوں میں کیوں واجب نہ ہوئی جبکہ یومیہ نمازیں پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے ہی سے جماعت سے مسلسل و مرتب انجام دی جاتی ہیں یا پھر اس وجوب کے خوف میں رسول مکرم(ص) کو یومیہ نمازوں کی جماعت سے بھی منع کرنا چاہیے تھا تاکہ کہیں جماعت واجب نہ ہوجائے۔

سوم : رسول مکرم اسلام(ص) کو کس چیز کا خوف تھا آیا نمازنافلہ کے واجب ہونے کا یا جماعت کے واجب ہونے کا جبکہ متعدد نافلہ و مستحبی نمازیں جماعت سے پڑھی جاتی ہیں جیسے نماز عید نماز استسقاء وغیرہ اور متعدد واجب نمازوں میں جماعت مستحب ہے جیسے نماز یومیہ آپ نے کسی کیلیے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی واجب ہونے کا خوف کیا۔

چھارم : اس روایت میں اجازت حضور اکرم تو کھاں رضایت آنحضرت بھی نظر نہیں آتی۔ لھذا واضح ہے کہ اگر یہ روایت سندا و متنا صحیح ہو تو اس خوف و نہی سے مراد وہی ہے کہ جو ہمارا مقصود ہے یعنی تراویح بدعت ہے رسول مکرم اسلام نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسطرح کی بدعتوں کو اختیار کرنا اتباع رسول نہیں ہے جبکہ خداوندعالم قرآن کریم میں صاف صاف الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے وما اتآکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا لھذا اب رسول اکرم کے نہی و منع کرنے کے باوجود بھی مسلمانوں کا نمازتراویح کے سلسلے میں کیوں مصر ہیں ہر صاحب عقل کے سامنے علامت سوال بنا ہوا ہے۔

نمازتراویح اور اھلبیت علیھم السلام

اھل بیت علیھم السلام ملجئ مسلمین ہیں اور انکا ہر عمل مسلمین کیلیے قابل اتباع و پیروی ہے چونکہ پیغبراکرم اپنے بعد انہیں کو نمونہ عمل اور جائے تمسک قرار دیکر گیے ہیں لھذا حدیث ثقلین میں ارشاد فرماتے ہیں (انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ماان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی حتی یردا علی الحوض)[34] گویا اھلبیت علیھم السلام کے دامن سے متمسک ھونے میں نجات یقینی ھے لھذا انکا ہر عمل حجت ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اھل بیت علیھم السلام نے نمازتراویح انجام دی یا نہیں ؟

اھلبیت کی اولین فرد حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے کہ جنکی طرف سے نمازتراویح کے متعلق انکار ہی انکار ملتاہے خواہ زمانہء خلافت ہو یا اسکے علاوہ کہیں بھی کسی بھی عالم میں آپ نے نمازتراویح انجام نہیں دی اور کیسے انجام دیتے جبکہ رسول اکرم اسکو بدعت و گمراھی بتاگئے ہیں۔ لھذا جب آپ دوران خلافت کوفہ تشریف لائے اور کوفہ میں ماہ رمضان آیا لوگ آپ کے پاس تشریف لائے اور نمازتراویح کیلیے کسی امام کی تعین کیلیے عرض کی آپ نے انکار کیا اور انکو جماعت سے منع فرمایا لیکن جب لوگوں نے اصرار کے باوجود امیرالمؤمنین کو نمازتراویح سے راضی نہ پایا تو وا رمضانا وا رمضانا کہکر گڑگڑانے اور چلانے لگے حارث الاعور آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا مولا لوگوں کو آپکا فرمان ناگوار گزراہے تب آپ نے فرمایا انکو چھوڑدو جسکے ساتھ نماز پڑھناچاہیں پڑھیں اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی (ومن یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی نصلہ جھنم وساءت مصیرا) جو لوگ مؤمنین کے راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں تو ہم بھی انکو انہی کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جائیں جھنم میں کہ جو بہت برا راستہ ہے۔[35]

یہ روایت امیرالمؤمنین کے مقصد کی عکاسی کررہی ہے کہ نمازتراویح بدعت ہے بدعتوں پر عمل کرنا جھنم کے راستے پر گامزن ہونا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام کو حکم دیا کہ اھل کوفہ کو نماز تراویح کے سلسلے میں منع کریں کہ یہ بدعت ہے اسکو انجام نہ دیا جائے امام حسن نے منبر کوفہ پر جاکر اعلان فرمایا لوگوں کو ناگوار گزرا یہاں تک کہ چیخنے گڑگڑانے لگے واعمراہ واعمراہ غیرت بدعۃ عمر کہتے ہوئے مسجد سے نکل گئے امام حسن نے واپس آکر ماجراہ والد ماجد کی خدمت میں بیان کیا آپ نے فرمایا انسے کہدو جسکے ساتھ پڑھنا چاہیں پڑھیں۔[36]

اگر چہ کچھ کج فھم افراد نے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے اس طرح کے ارشادات سے نمازتراویح کے جواز میں سوء استفادہ کیا ہے جبکہ ہر عقل سلیم کیلیے نمازتراویح سے انکار واضح ہے۔ ہاں ان روایات میں کجھ نرمی ضرور نظر آتی ہے جسکے بارے آپ نے ایک خطبہ میں نمازتراویح کے متعلق مکمل و مفصل نرمی کی وجہ بیان فرمائی ہے لھذا آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کو امر کیا کہ ماہ مبارک رمضان میں واجب نمازوں کے علاوہ جماعت نہ کریں اور انکو سمجھایا کہ نافلہ نمازوں میں جماعت بدعت ہے تو میرے لشکر کے بعض سپاہیوں نے شور مچایا کہ اے اھل اسلام سنت عمر تبدیل ہوگئی اور ہمکو رمضان کی نافلہ نمازوں سے روکا جارہا ہے (یہاں پر امیرالمؤمنین نے مسلمانوں کی بے باکی، جرئت ، بے حیائی وجھالت پر گریہ کیا اور اپنی نرمی کی وجہ بیان فرمائی ) کہ مجھے خوف ہوا کہ کہیں یہ لوگ میرے لشکر سے کنارہ کشی اختیار نہ کرلیں۔[37]

حضرت علی علیہ السلام کی طرح تمام آئمہء اھلبیت علیھم السلام نمازتراویح کو بدعت جانتے ہیں لھذا نمازتراویح کی نفی میں حدیثی و فقہی شیعہ کتب روایات اھلبیت علیھم السلام سے مملوء ہیں اور اسی کا خود علماء اھل تسنن کو بھی اعتراف ہے لھذا علامہ

شوکانی رقمطراز ہیں کہ عترت اطہار علیھم السلام کے نزدیک نمازتراویح یعنی نافلہ ماہ رمضان کو جماعت سے انجام دینا بدعت ہے ۔[38]

نمازتراویح اور صحابہ کرام

اگرچہ دین مقدس اسلام میں صحابہ کا عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحابی کے کسی فعل کو دلیل بنایا جاسکتا ہے مگر یہ کہ تقریر یا تائید معصوم موجود ہو اور پھر صحابی بھی ایک عام لفظ ہے کہ جو لاتعد ولا تحصی افراد پر صادق آتا ہے لیکن وہ صحابی کہ جو معروف و مشہور ہیں اور انکے کارنامے تاریخ اسلام میں درج ہیں وہ بھی دو حصوں میں منقسم ہیں اسطرح کہ کچھ اصحاب تابع اھلبیت علیہم السلام ہیں اور نص کی موجودگی میں اظہار اجتھاد نہیں کرتے لھذ ا وہ مسئلہ تراویح میں بھی تابع ہیں اور جو راستہ اھلبیت علیہم السلام کا ہے وہی انکا ہے جیسے سلمان فارسی، ابوذرغفاری، عماریاسر، مقداد وغیرہ اور کچھ وہ اصحاب ہیں کہ جو اپنے اجتھاد و رائ پر عمل کرتے ہیں انمیں سے بھی بزرگ اصحاب نمازتراویح کو بدعت و خلاف سنت مانتے ہوئے انجام نہیں دیتے جیسے عبداللہ ابن عمر وغیرہ لھذا علامہ عبدالرزاق نے اپنی عظیم کتاب المصنف میں تحریر کیا ہے کہ عبداللہ ابن عمر نے کبھی نافلہ ماہ رمضان جماعت سے انجام نہیں دیں .[۳۹

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد