نماز تراویح ؟

نمازتراویح اور شیخین

حضرات محمد وآل محمد علیہم السلام کے موقف کی وضاحت کے بعد اور اس مسئلہ کی مکمل تحقیق و بررسی کے بعد کہ نمازتراویح بدعت و خلاف سنت ہے اور اس فعل کو نہ رسول اکرم نے انجام دیا نہ اھلبیت نے اور نہ ہی بزرگ صحابہ کرام نے اب مسئلہ یہ رھ جاتا ہے کہ آیا خود جناب ابوبکر و جناب عمر نے نمازتراویح انجام دی ہے یا نہیں ؟ چونکہ اھل تسنن مدعی ہیں کہ رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے کہ علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین [40] یا دوسری روایت اقتدوا باللذین بعدی[41] جواب یہ ہے کہ یہ دونوں روایتیں خود علماء اھل تسنن کے نزدیک جعلی و گھڑی ہوئی ہیں اور ضعف سند کو غض نظرکرتے ہوئے بھی اگر غور کیا جائے تو بھی رسول اکرم نے سنۃ الخلفاء الراشدین فرمایا ہے نہ کہ بدعۃ الخلفاء الراشدین جبکہ نمازتراویح کے بدعت ہونے کا خود جناب عمر کو بھی اعتراف ہے اور پھر صاحب سبل السلام اس روایت کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں کہ خلفاء راشدین کی سنت اس صورت میں قابل اقتداء ہے کہ چاروں خلفاء کسی ایک مسئلے پر متفق ہوں وگرنہ اگر اختلاف ہو تو قابل اقتداء نہیں ہیں جبکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ خلفاء راشدین میں سے حضرت علی علیہ السلام نے ہییشہ نمازتراویح کی مخالفت کی ہے اور اسکو خلاف سنت قرار دیا ہے ۔

جناب بوبکر کے سلسلے میں خود اھل تسنن کے مایہء ناز علماء کتاب صحیح بخاری کے اس جملہ( فتوفی رسول اللہ والامر علی ذالک وفی خلافۃ ابی بکر و صدرا من خلافتۃ عمر)[42] کے ذیل میں علامہ قسطلانی، علامہ عسقلانی، علامہ عینی و تمام شارحین بخاری و تمام ہی مؤرخین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ عصر پیغمبراکرم اور خلافت ابی بکر کے دوران

نمازتراویح کا وجود نہ تھا بلکہ اسکو جناب عمر نے اپنی خلافت کے دوران سن 14 ہجری میں ایجاد کیا تو واضح ہے کہ جناب ابوبکر نے بھی نمازتراویح انجام نہیں دی ۔

جناب عمر کا تراویح پڑھنا شاید مسلمین کے لیے محکم دلیل قرار پائے لیکن افسوس کہ جناب عمر بھی کہیں پر نمازتراویح پڑھتے نظر نہیں آئے لھذا اھل تسنن کے عظیم محدث و فقیہ علامہ ابوطاھر بیان فرماتے ہیں کہ روایت عبدالرحمن بن عبدالقاری سے جو بات مسلم و ثابت ہے وہ یہ کہ نمازتراویح کی امامت ابی بن کعب انجام دیتے تھے ارو عمر اپنے گھر میں نمازنافلہ پڑھتے تھے اسلیے کہ اگر جناب عمر نمازتراویح پڑھا کرتے تو حتما و یقینا خود ہی امام ہوتے[43] نیز شارح بخاری صاحب عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری جناب علامہ عینی اس جملہ کی شرح کرتے ہوئے خرجت معہ لیلۃ اخری ای عمر تحریر کرتے ہیں کہ یہ جملہ اس بات پر دلالت و اشعار ہے کہ عمر نماز تراویح انجام نہیں دیتے تھے اور وہ نافلہ نمازوں کو گھر میں خصوصا آخر شب میں انجام دینا بہتر جانتے تھے[44]۔

بہر حال ہم اسلام کی بزرگ و عظیم ہستیوں کا ذکر چکے ہیں کہ کسی نے بھی نمازتراویح کو انجام نہیں دیا تو اب مسلمانوں پر کیا دلیل ہے ؟ مذکورہ بالا دو روایتوں کا حال بھی مشخص ہے کہ ضعف سند و دلالت کے بعد بھی اھل تسنن کے عظیم علماء اسطرح کی اقتداءکے منکر ہیں اور انکو حجت نہیں مانتے لھذا امام ابوحامد غزالی کہ عارف فقیہ محدث مؤرخ بلکہ تمام علوم و فنون میں متبحر ہیں اپنی کتاب المستصفی میں تحریر کرتے ہیں کہ اصول موھومہ میں سے دوسری اصل قول صحابی ہے کہ کچھ لوگ قائل ہیں کہ مذھب صحابی مطلقا حجت ہے اور بعض کا نظریہ ہے کہ قول صحابی اگر مخالف قیاس ہو تو حجت ہے، ایک قوم معتقد ہے کہ قول ابوبکر و عمر حجت ہے چونکہ حدیث رسول ہے اقتدوا بالذین بعدی ابابکر و عمر اور کچھ افراد قائل ہیں کہ قول خلفاء راشدین حجت ہے اگر کسی قول پر یہ خلفاء متفق ہوں ، والکل عندنا باطل جبکہ یہ تمام نظریے ہمارے نزدیک باطل ہیں اس لیے کہ جو شخص غلط و سھو کا مرتکب ہوسکتا ہو اور اسکی عصمت ثابت نہ ہو اسکا کوئی فعل و عمل حجت نہیں ہے اور ایسے افراد کے قول کو کیسے دلیل بنایا جاسکتا ہے کہ جو خود جائزالخطاء ہیں[45]

نتیجۂ گفتگو

گزشتہ تلاش و جستجو اور تحقیق و بررسی کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ نمازتراویح ایک ایسی بدعت ہے کہ جسکو خود بانئ بدعت نے بدعت قرار دیا اور آج تک تمام ہی مسلمان اس کو بدعت تسیلیم کرتے ہیں نیز یہ وہ فعل ہے کہ جسکو نہ رسول مکرم اسلام نے انجام دیا اور نہ اھلبیت اطھار نے نہ ہی معزز صحابہ نے اور نہ ہی محترم خلفاء نے تو اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ مسلمان کس کی اقتداء کر رہے ہیں ؟ اور کس کے نقش قدم پر زندگی گزار رہے ہیں ؟

بہر حال ہمیں امید ہے کہ اس کتابچہ کا مطالعہ کرنے کے بعد منصف مزاج، تشنگان راہ ہدایت،اور حقیقت جو مسلمان راہ حق پر آجائیں گے اور پھر وہی عبادت انجام دیں گےکہ جو محل نزول وحی الھی، معدن رسالت، مخزن نبوت، اھلبیت علیہم السلام کے توسط سے ہم تک پہونچی ہیں اور یہ اتحاد بین المسلیمن کا بھی بہترین ذریعہ قرار پائیگا۔

خداوندکریم کے حضور ملتمس ہوں کہ تمام ہی مسلمانان عالم کی عبادتوں کو جامۂ قبولیت سے نوازے اور حقیر کو بھی خدمت گزاران مؤمنین و شیعیان میں سے قرار دے۔ آمین یا رب العالمین .

سید سبط حیدر زیدی

حوزہ علمیہ مشہدمقدس

--------------------------------------------------------------------------------

[1] لسان العرب، ج5 مادہ روح، ص360

[2] مجمع البحرین، ج1-2 مادہ روح، ص244

[3] مفاتیح الجنان

-[4]تھذیب الاحکام، ج3،ص62،حدیث16، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ ۔ الاستبصار، ج1، ص462، حدیث9، باب الزیادات فی شھر رمضان ۔ وسائل الشیعہ، ج8، ص29، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب زیادۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان، حدیث2

-[5] کافی، ج4، ص154، کتاب الصیام باب ما یزاد من الصلاۃ فی شھر رمضان، حدیث1 ۔ وسائل، ج8، ص29، ، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب زیادۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان، حدیث6 ۔ تھذیب الاحکام، ج3، ص63، حدیث18، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ ۔ الاستبصار، ج1، ص463، حدیث11، باب الزیادات فی شھر رمضان

-[6] کافی، ج4، ص155، کتاب الصیام باب ما یزاد من الصلاۃ فی شھر رمضان، حدیث6 ۔ وسائل، ج8، ص33، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب زیادۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان، حدیث7 ۔ تھذیب الاحکام، ج3، ص65، حدیث 23، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ ۔ الاستبصار، ج1، ص464، حدیث13، باب الزیادات فی شھر رمضان

[7]- ۔ وسائل، ج8، ص17، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب صلاۃ ماۃ رکعۃ لیلۃ تسع عشر و ماۃ رکعۃ لیلۃ احدی و عشرین منہ و ماۃ رکعۃ لیلۃ ثلاث و عشرین والاکثار فیھا من العبادۃ ۔ الاستبصار، ج1، ص466، حدیث15، باب الزیادات فی شھر رمضان

[8] - وسائل، ج8، ص35، کتاب الصلاۃ ابواب نافلۃ شھر رمضان باب استحباب زیادۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان، حدیث12 ۔ کافی، ج4، ص154، کتاب الصیام باب ما یزاد من الصلاۃ فی شھر رمضان، حدیث1 ۔ تھذیب الاحکام، ج3، ص66، حدیث 21، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ ۔ الاستبصار، ج1، ص466، حدیث15، باب الزیادات فی شھر رمضان

[9] - الانتصار، مسئلہ67، کیفیۃ نوافل رمضان

[10] - الخلاف، ج1، ص530، کتاب الصلاۃ مسئلہ 269، کیفیت صلاۃ الف رکعۃ فی شھر رمضان

[11] - مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، ج2، ص345، کتاب الصلاۃ الباب الثالث فی باقی الصلوات الفصل الخامس فی صلاۃ المندوبۃ المطلب الثالث فی نافلۃ شھر رمضان، مسئلہ241،

[12] - شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، ج1 ص312، کتاب الصلاۃ الرکن الثالث فی بقیۃ الصلوات الفصل الخامس فی الصلوات المرغبات

[13] - مستند الشیعہ، ج6، ص377، کتاب الصلاۃ الباب الرابع فی الصلوات النوافل الغیر الیومیۃ، الثالثۃ الف رکعۃ نافلۃ شھر رمضان زیادۃ علی النوافل المرتبۃ

[14] - عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، ج11، ص126، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان

[15] - ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری، ج4، ص578، ، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان، حدیث2010

[16] - صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب الصلاۃ باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث265

[17] - الطبقات الکبری، ج3، ص213

[18] - الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج3، ص236، حرف العین باب عمر

-[19] مآثر الانافۃ فی معالم الخلافۃ، ج3، ص337، الباب السابع فی ذکر الاوائل المنسوبۃ الی الخلفاء

[20] - محاضرات الاوائل، ص149

[21] - شرح الزرقانی علی المؤطا الامام مالک، ج1، ص358، کتاب الصلاۃ فی رمضان باب1(الترغیب فی الصلاۃ فی رمضان)

[22] - سبل السلام شرح بلوغ المرام من جمع ادلۃ الاحکام، ج2، ص16، کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التطوع حدیث401

[23] - البدعۃ، ص133

[24] - سبل السلام شرح بلوغ المرام من جمع ادلۃ الاحکام، ج2، ص16، کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التطوع حدیث401

[25] - الاعتصام، ج1، ص98، الباب الثالث فی ان ذم البدع والمحدثات عام

[26]- جامع العلوم والحکم، ص325، حدیث الثامن و العشرون

[27]- ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری، ج4، ص577، ، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان، حدیث2010

[28] - المغنی، ج1، ص798 کتاب الصلاۃ باب صلاۃ التراویح

[29] - عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، ج11، ص126، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان

[30] - شرح الزرقانی علی المؤطا، ج1، ص359، کتاب الصلاۃ فی رمضان باب2(ماجاء فی الصلاۃ فی رمضان)

[31] - صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب الصلاۃ باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث265

[32] - تھذیب الاحکام، ج3، ص69، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ حدیث29 ۔ وسائل الشیعہ، ج8، ص45، کتاب الصلاۃ باب عدم جواز الجماعۃ فی صلاۃ النوافل، حدیث1

[33] - صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب الصلاۃ باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث267

[34] - عبقات الانوار فی اثبات امامۃ آئمۃ الاطھار (حدیث الثقلین)

[35] - وسائل الشیعہ، ج8، ص47، کتاب الصلاۃ باب عدم جواز الجماعۃ فی صلاۃ النوافل، حدیث5

[36]- تھذیب الاحکام، ج3، ص69، باب فضل شھر رمضان والصلاۃ فیہ حدیث30 ۔ وسائل الشیعہ، ج8، ص46، کتاب الصلاۃ باب عدم جواز الجماعۃ فی صلاۃ النوافل، حدیث2

[37] - وسائل الشیعہ، ج8، ص46، کتاب الصلاۃ باب عدم جواز الجماعۃ فی صلاۃ النوافل، حدیث6

[38] - نیل الاوطار ج3 ص 50

[39] - المصنف ج5 ص 264

[40] ۔ لاتضیعوا السنۃ الفصل الثالث {مصطفی خمیس} و دعوۃ الی سبیل المؤمنین ص 53 {طارق بن زین العابدین} ۔

[41] ۔ دعوۃ الی سبیل المؤمنین ص 73 {طارق بن زین العابدین} ۔

[42] ۔ صحیح البخاری، ج3، ص100، کتاب صلوۃالتراویح باب 156(فضل من قام رمضان) حدیث265

[43]

[44] - عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری، ج11، ص126، کتاب صلاۃ التراویح باب فضل من قام رمضان

نظرات 0 + ارسال نظر
برای نمایش آواتار خود در این وبلاگ در سایت Gravatar.com ثبت نام کنید. (راهنما)
ایمیل شما بعد از ثبت نمایش داده نخواهد شد